گریہ کناں یہ منظر بینائی چاہتا ہے

گریہ کناں یہ منظر بینائی چاہتا ہے
جو زخم بھر گیا تھا گہرائی چاہتا ہے

دل ریزہ ریزہ کب تک بکھرا ہوا رہے گا
آئینہ ٹوٹ کر اب یکجائی چاہتا ہے

وہ چاہتا ہے سیکھوں رسم- منافقت میں
مجھ سے صفات ساری دنیائی چاہتا ہے

قانون ہے ازل سے ، جتنی بھی لاڈلی ہوں
بہنیں ہوں اپنے گھر کی ہر بھائی چاہتا ہے

کوئی رفوگری کا سامان ہو میسر
اک زخم ان سلا تھا ترپائی چاہتا ہے

خاموش دھڑکنوں میں اک نام گونجتا ہے
اب یہ سکوت اپنی شنوائی چاہتا ہے

ازبر ہوں نقش تیرے جب امتحان آئے
دل عشق کے سبق کی دہرائی چاہتا ہے
کومل جوئیہ

Comments