کرب تعبیر تو آنکھوں میں ٹھہر جائے گا

کرب تعبیر تو آنکھوں میں ٹھہر جائے گا
ریزہ ریزہ مرے خوابوں کا بکھر جائے  گا
دل تو میرا ہے مگر اس پہ تسلط اس کا
لاکھ کھینچوں میں  ادھر کو، یہ ادھر جائے گا
جس کی ٹھنڈک میں رہا ڈوب کے سورج دن بھر
شام کو آگ اسی جھیل میں بھر  جائے گا
میری قسمت میں یہ چکر تو ہمیشہ سے رہا
جس طرف ناؤ میری ہو گی بھنور  جائے گا
دل کی دیوار پہ لمحوں کی نشانی ہو گی
وقت دریا تو ، بہرحال گزر جائے  گا
میں نے اس آس پہ سورج کو نکالا گھر سے
چاند آنگن میں کسی روز ٹھہر جائے  گا
غم کی یلغار کو چہرے سے عیاں ہونے دے
درد سے حسن تیرا اور نکھر جائے  گا
شہزاد نیّر

Comments