اک بے وفا کے نام

تیرے بھی دل میں ہوک سی اٹھے خدا کرے
تو بھی ہماری یاد میں تڑپے خدا کرے

مجروح ہو بلا سے ترے حسن کا غرور
پر تجھ کو چشم شوق نہ دیکھے خدا کرے

کھو جائیں تیرے حسن کی رعنائیاں تمام
تیری ادا کسی کو نہ بھائے خدا کرے

میری ہی طرح کشتئ دل ہو تری تباہ
طوفان اتنے زور کا اٹھے خدا کرے

راہوں کے پیچ و خم میں رہے تا حیات گم
منزل ترے قریب نہ آئے خدا کرے

ظلمت ہو تو ہو اور تری رہ گزار ہو
دنیا میں تیری صبح نہ پھوٹے خدا کرے

تجھ پر نشاط و عیش کی راتیں حرام ہوں
مر جائیں تیرے ساز کے نغمے خدا کرے

آئیں نہ تیرے باغ میں جھونکے نسیم کے
تیرا گل شباب نہ مہکے خدا کرے

ہر لمحہ تیری روح کو اک بے کلی سی ہو
اور بے کلی میں نیند نہ آئے خدا کرے

ہو تیرے دل میں میری خلش میری آرزو
میرے بغیر چین نہ آئے خدا کرے

تو جا رہی ہے بزم طرب میں تو خیر جا
پر تیرا جی وہاں بھی نہ بہلے خدا کرے

المختصر ہوں جتنے ستم تجھ پہ ٹوٹ جائیں
لیکن یہ ربط زیست نہ ٹوٹے خدا کرے

جو کچھ میں کہہ گیا ہوں جنوں میں وہ سب غلط
تجھ پر کوئی بھی آنچ نہ آئے خدا کرے

تو ہے متاع قلب و نظر بے وفا سہی
ہے روشنیٔ داغ جگر بے وفا سہی

اویس احمد دوراں

Comments