یہ نہیں ہے کہ میں مایوس نہیں ہوتا تھا

یہ نہیں ہے کہ مَیں مایوس نہیں ہوتا تھا
پر مِرے لہجے سے محسوس نہیں ہوتا تھا
وصل ہی وصل تھا، خوش حالی ہی خوش حالی تھی
ہجر نامی کوئی منحوس نہیں ہوتا تھا
تیرے آنے سے یہ تبدیلی بھی آئی مجھ میں
مَیں کسی شخص سے مانوس نہیں ہوتا تھا
تجھ سے پہلے تو کہیں سے بھی گزر جاتے تھے
راستہ ایک ہی مخصوص نہیں ہوتا تھا
ہم محبت کے کنارے پہ پڑے رہتے تھے
سخت موسم ہمیں محسوس نہیں ہوتا تھا
جسم کی جسم سے ہوتی تھی ستر پوشی حسن
پاس اپنے کوئی ملبوس نہیں ہوتا تھا
حسن ظہیر راجا

Comments