یار محبت خود ہی پہلی باری ہوجاتی ہے

یار ! محبت خود ہی پہلی باری ہوجاتی ہے
بعد میں یہ لذت اعصاب پہ طاری ہو جاتی ہے
گاوں چھوڑ کے آنے والا روتا رہ جاتا ہے
ظالم لڑکی ملنے سے انکاری ہو جاتی ہے
یہ حساس طبیعت اک دن لے ڈوبے گی یونہی
ہم ایسوں کی ہونہی دل آزاری ہوجاتی ہے
دکھ نے کیسا چلہ کاٹا میرے گھر کے آگے
آسانی ہوتے ہوتے دشواری ہوجاتی ہے
ہیلو سن کر کاٹ دیا کرتی ہوں کال ہمیشہ
سنتے ہی آواز بڑی سرشاری ہو جاتی ہے
سکھ کی خاطر محنت کرتے عمر گذر جاتی ہے
پیسہ آئے تو کوئی بیماری ہو جاتی ہے
مدت سے خالی گھر جیسی ویرانی ہے دل میں
حبس کی طرح سانس پہ وحشت طاری ہو جاتی ہے
ساتھ نکلنے والے جب رستہ بدلیں یا چھوڑیں
سر پہ رکھی گھٹڑی یکدم بھاری ہو جاتی ہے
تم نے اوس میں بھیگے پھول نہیں دیکھے ہیں شائد
رونے والی صورت اور بھی پیاری ہو جاتی ہے
بیٹے کی دولہن لگتی ہے غاصب کومل لیکن
اپنی بیٹی ہو تو وہ بے چاری ہو جاتی ہے
کومل جوئیہ

Comments