خوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا

خوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے بادِ صبا میری کروَٹ تو بدل جانا



  
پالَغزِ محبّت سے مُشکِل ہے سَنبَھل جانا
اُس رُخ کی صفائی پر اِس دِل کا پِھسَل جانا
سِینہ میں جو دِل تڑپا دھر ہی تو دِیا دیکھا
پِھر بُھول گیا کیسا مَیں ہاتھ کا پَھل جانا
اِتنا تو نہ گھبراؤ راحت یہِیں فرماؤ
گھر میں مِرے رہ جاؤ آج اور بھی کَل جانا
اے دِل وہ جو یاں آیا کیا کیا ہمیں ترسایا
تُو نے کہِیں سِکھلایا قابُو سے نِکل جانا
کیا ایسے سے دعویٰ ہو مَحشَر میں کہ مَیں نے تو
نظارہءِ قاتِل کو اِحسانِ اَجل جانا
ہے ظُلم کرم جِتنا تھا فرق پڑا کِتنا
مُشکِل ہے مِزاج اِتنا اِک بار بدل جانا
حُوروں کی ثنا خوانی واعِظ یُوں ہی کب مانی
لے آ کہ ہے نادانی باتوں میں بہل جانا
عِشق اُنکی بَلا جانے عاشِق ہوں تو پہچانے
لو مُجھ کو اَطّبِا نے سَودے کا خلَل جانا
کیا باتیں بناتا ہے وہ جان جلاتا ہے
پانی میں دِکھاتا ہے کافُور کا جل جانا
مَطلَب ہے کہ وَصلَت میں ہے بُوالہَوَس آفت میں
اِس گرمیِ صُحبَت میں اے دِل نہ پِگھل جانا
دَم لینے کی طاقت ہے بیمارِ محبت ہے
اِتنا بھی غنِیمَت ہے مومنؔ کا سَنبَھل جانا

مومن خان مومن

Comments