بدلا عدو تو یار بھی اپنا بدل گیا

بدلا عدُو تو یار بھی اپنا بدل گیا
کِس سے کہیں کہ شہر میں کیا کیا بدل گیا
پہلی سی بات کارِ سُخن میں نہیں رہی
کچھ ہم بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
صُبحِ وصال تھی کہ وہ شامِ فراق تھی
اِک شب میں آفتاب کا چہرہ بدل گیا
ہر روز دیکھتا تھا جو رستہ، وہ شخص بھی
اِک روز ہم کو دیکھ کے رستہ بدل گیا
سوچا اُسے تو خواب حقیقت لگے ہمیں
دیکھا اُسے تو نیند کا نقشہ بدل گیا
دَستِ طمع دراز رہا عُمر بھر نجیبؔ!
پُورا ہُوا سوال تو کاسہ بدل گیا

نجیب احمد

Comments