کبھی سڑکیں تو کبھی ریل مسلط کرکے

کبھی سڑکیں تو کبھی ریل مسلط کرکے 
کھینچ لیتا ہے لہو ،  تیل مسلط کرکے
حاکم وقت تسلسل سے ہمیں مارتا ہے 
روز اک اور نیا کھیل مسلط  کرکے



  
پہلے تو دکھ مرے اجناس میں تبدیل کیے 
پھر تہی دست کیا  سیل مسلط کرکے
کیا ترا اب بھی نہیں دور ہوا خوف بتا 
میری فریاد پہ بھی جیل مسلط کرکے
عشق نے رکھے ہیں مفلوج مرے دیدہ و لب 
دل کی ہر شاخ پہ اک بیل مسلط کرکے
جوڑیاں عرش پہ جوڑو یا زمیں پر مولا 
تونے توڑا ہے ہمیں  میل مسلط کرکے
فرحت عباس شاہ

Comments