اکیلے پن کی وحشت سے نکل کر مسکراؤں تو

اکیلے پَن کی وحشت سے نِکل کر مسکراؤں تو
محبت خواب ہی تو ہے اچانک جاگ جاؤں تو؟
خدا سے مانگ کر تجھ کو خدا پر چھوڑ سکتا ہوں
اگر اس مسئلے میں،مَیں خدا کو بھی نہ لاؤں تو؟
سمجھ لینا یہ وہ دکھ ہے جسے میں کہہ نہیں پایا
سخن کو چھوڑ کر بِالفَرض مَیں کَتبے بناؤں تو
سفر درپیش ایسا ہے تعیّن ہی نہیں, پھر بھی
کہاں تک آ گیا ہوں میں ذرا ایڑھی گھماؤں تو
مجھے بھی ہو یقیں آخر! مرا ہونا مکمل ہے



  
کسی کو یاد آؤں تو!کسی کو بھول پاؤں تو
ابھی مرنا پڑا مجھ کو ! مگر وہ پوچھنا یہ تھا!
خدا سے زندگی لے کر دوبارہ لوٹ آؤں تو؟
تو کیا ساحر عقیدت میں اسے معیوب سمجھیں گے؟
ندی میں روز پھولوں کی جگہ آنسو بہاؤں تو؟
جہانزیب ساحر

Comments

Post a Comment