جہاں تلک تو مری ذات کا تعلق ہے

جہاں تلک تو مری ذات کا تعلق ہے
ترے سوائے جہاں بھر سے لا تعلق ہے



  
ہمیں اکٹھے کبھی دیکھنا کہیں بیٹھے
نہیں ہے پھر بھی لگے گا بڑا تعلق ہے
میں اس کو توڑتے، اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا
مرا خیال تھا کمزور سا تعلق ہے
خوشی کے بارے میں محدود علم رکھتا ہوں
وہ یوں کہ اس سے مرا دور کا تعلق ہے
ہمارا ربط، تعارف سے ماورا ہے دوست
کبھی کسی کو بتانا پڑا، تعلق ہے؟
میں قطع کرتا نہیں سرسری تعلق بھی
تمہارے ساتھ تو اچھا بھلا تعلق ہے
تعلقات کشیدہ ہیں آج کل سب سے
اور اس کی وجہ تمہارا مرا تعلق ہے
میں تجھ سے ربط بنا کر رہوں گا جو بھی ہو
تو آزما لے جہاں تک ترا تعلق ہے
کسی کے ساتھ بنایا تو پھرکھلا مجھ پر
براہِ راست تعلق بھی کیا تعلق ہے!
عمیر نجمی

Comments