بے اولاد

بے اولاد
اسے معلوم ہے شاید
ادھورے رنگ کی تصویر ہوتی ہے
کہانی
کیسے کرداروں کے کم پڑنے سے بے توقیر ہوتی ہے
وہ جب بھی دیکھتی ہے
خالی گہوارے میں رکھے
آرزؤں سے
بنے ننھے سویٹر کو
گلہ کرتی ہے مجھ سے اس طرح جیسے
مری مٹھی میں ہو تریاق اس
زہر - اذیت کا
اسے میں روز کہتا ہوں
کبھی تقدیر پر تدبیر کی پیوند کاری سے مسائل حل نہیں ہوتے
مگر کیسے
وہ بازو پر بندھی منت کی ڈوری توڑ سکتی ہے
وہ عورت ہے
اسے محسوس ہوتا ہے
فقط تکمیل ہی اس کے تحفظ کی ضمانت ہے
کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے
جب اس کی گود کا خالی پن اس پر فقرے کستا ہے
چلا لیتی ہے اکثر کام میرے بچپنے سے
میری مصنوعی شرارت کے
کسی
بوسیدہ جذبے سے
اور اک میں ہوں
جو اس کار - مسلسل کی اداکاری سے تنگ آ کر
اثاثے
دونوں جسموں کے
مسیحاؤں کے اس بازار میں لے جانے والا ہوں
جہاں زرخیز اور بنجر کی پیمائش ذرا آسان ہوجائے
بھلے میرا
بھلے اس کا کوئی نقصان ہو جائے
اظہر فراغ

Comments