ہم کبھی شہر محبت جو بسانے لگ جائیں​

ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں​
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں​
کبھی اک لمحہ فرصت کا جو میّسر آجائے​
میری سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں​
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے​
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں​
انتظار اُس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا​
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں​
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ​
شب کو کاغذ پہ تیرا چہرا بنانے لگ جائیں​
ہم بھی کیا اہلِ قلم ہیں کہ بیاضِ دل پر​
خود ہی اک نام لکھیں خود ہی مٹانے لگ جایئں​
عجب انسان ہیں ہم بھی کہ خطوں کو اُن کے​
خود ہی محفوظ کریں خود ہی جلانے لگ جایئں​



   
وہ ہمیں بھولنا چاہیں تو بُھلا دیں پل میں​
ہم انہیں بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جایئں​
اُن مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے​
جن میں خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جایئں​
نہیں جلتا تو اُترتا نہیں قرضِ ظلمت​
جلنا چاہوں تو مجھے لوگ بجھانے لگ جائیں​
گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدل​
باہر آؤں تو اُجالے مجھے کھانے لگ جائیں​
بیدل حیدری​

Comments