سرگوشی

سرگوشی - افتخار حسین عارف
تمہیں کیا ہو گیا ہے
بتاؤ تو سہی اے جانِ جاں ! جانانِ جاں!
آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے
اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے ہو ،اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو
اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو
بتاؤ تو سہی ۔۔ آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے
چلو ہم نے یہ مانا یہ زمانہ اب ہمارے اور تمہارے بس سے
باہر ہوگیا ہے
ان دنوں میں بےحسی کے موسموں میں دل کا خوں ہونا
مقدر ہوگیا ہے
مگر اُس قہرماں بستی میں دو آنکھیں تو ایسی ہیں کہ جن میں
کوئی اندیشہ نہیں ہے اور جن کے خواب یکساں ہیں
بہت مبہم سی تعبیر کا امکان تو ہے
یہ شب گزرے نہ گزرے صبح پر ایمان تو ہے
تو پھر اے جانِ جاں ویراں کیوں ہو
اس قدر شاداب آنکھیں جب دعاگو ہیں
تو اتنے بے سروسامان کیوں ہو
بتاؤ تو سہی اے جانِ جاں آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے
اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے ہو
اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو
اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو!

Comments