دن ڈھلا اور شام آئی روشنی جاتی رہی

دن ڈھلا اور شام آئی روشنی جاتی رہی
ڈار سے بچھڑی ہوئی اک کونج کرلاتی رہی



  
موت سے یکدم لپٹنے کا مزہ ہی اور ہے
زندگی پاگل کہیں کی یونہی گھبراتی رہی
تجھ سے تو اچھا ہے تیرے جسم کی خوشبو کا ظرف
تو نہیں ٹھہرا مگر وہ دیر تک آتی رہی
میں ادھوری نظم کا ٹکڑا تھا اور اک شاعرہ
میر کا مصرع سمجھ کر مجھ کو دہراتی رہی
اس کو صحرائی مناظر دیکھنے کا شوق تھا
اس لئے وہ مجھ سے اپنی آنکھ بہلاتی رہی
وہ ہوا تھی ہی نہیں لیکن ہوا کے روپ میں
رات بستی کے چراغوں کو بلا کھاتی رہی
راکب مختار

Comments