عجب تلاشِ مسلسل کا اختتام ہوا

عجب تلاشِ مسلسل کا اختتام ہوا
حصولِ رزق ہوا بھی تو زیرِ دام ہوا
ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا
کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا
ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں
عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں، اور سفر تمام ہوا
ہم اپنے ساتھ لیے پھر رہے ہیں پچھتاوا
خیال لوٹ کے جانے کا گام گام ہوا
آنس معین

Comments