ہم بھی نہیں ہوں گے، یہ جہاں بھی نہیں ہو گا

ہم بھی نہیں ہوں گے، یہ جہاں بھی نہیں ہو گا
کچھ ایسے مٹیں گے کہ نشاں بھی نہیں ہو گا
یہ خوف اجل بھی نہیں ہو گا کسی دل میں



  
یہ تذکرہ عمر رواں بھی نہیں ہو گا
یہ عاجزی اہل طلب بھی نہیں ہو گی
یہ طنطنہ کج کلہاں بھی نہیں ہو گا
جل جائیں گے ہم گرمی رفتار جہاں سے
یہ بات الگ ہے کہ جہاں بھی نہیں ہو گا
وہ دور بھی آئے گا، ابھی دیکھتے کیا ہو
کیا ذکر یقیں کا کہ گماں بھی نہیں ہو گا
ہم چلتے چلے جائیں گے اس آگ میں اے دل
اور ایسے جلیں گے کہ دھواں بھی نہیں ہو گا
کہتے ہیں کہ دل یار کی محفل میں ہے موجود
اور ہم کو یقیں ہے کہ وہاں بھی نہیں ہو گا
ضیا الحسن

Comments