غم اگر ساتھ نہ تیرا دے گا

غم اگر ساتھ نہ تیرا دے گا
پھر تُجھے کوئی نہیں پُوچھے گا
جاگ اُٹھیں گی پُرانی یادیں
توُ مگر خوابِ گراں چاہے گا
دل میں طوُفان اُٹھیں گے، لیکن
ایک پتّا بھی نہیں لَرزے گا
ہر طرف چھائے گی وہ خاموشی
اپنی آواز سے توُ چونکے گا
اِنہی ٹھہرے ہُوئے لمحوں کا خیال
دل سے طوُفاں کی طرح گُزرے گا
نہ بَسیں گے یہ خرابے دل کے
کوئی مُڑ کر نہ اِدھر دیکھے گا
اے مِرے حُسنِ گریزاں، کب تک
توُ مِری قدر نہ پہچانے گا
مُجھے ذرّہ نہ سمجھنے والے
توُ سِتاروں میں مُجھے ڈھُونڈے گا



  
مُجھ سے کَترا کے گُزرنے والے
توُ مِری خاک کو بھی چُومے گا

شہزاد احمد

Comments