اک تناسب سے مجھے خلق خدا کھینچتی ہے

اک تناسب سے مجھے خلق خدا کھینچتی ہے
ڈھیل دیتی ہے ذرا اور ذرا کھینچتی ہے



پانی مقدار میں کم آنے لگے تو سمجھو
آنکھ ابرو کے مساموں سے ہوا کھنچتی ہے

بھیڑ میں ہاتھ چھڑاؤں تو سگی ماں کی طرح
بدّدعا دے کے مجھے کوئی دعا کھینچتی ہے

اے مری شاعری ! میں یوسف ثانی تو نہیں
کیوں زلیخا کی طرح میری قبا کھینچتی ہے

مجھ سے زندان کے عادی کو خبر کیا کہ ہوا
سانس لینے میں مدد کرتی ہے یا کھینچتی ہے

ایک جیسی ہے خدا کی بھی ، غزل کی بھی زمیں
اپنے دامن میں سبھی کو یہ بلا کھینچتی ہے

افضل خان

Comments