جانے کیا ڈر دل بے باک میں بیٹھا ہوا ہے

جانے کیا ڈر  دل بے باک میں بیٹھا ہوا ہے 
آسماں پوش ہے اور خاک میں بیٹھا ہوا ہے



 لوگ آتے ہیں  ٹھہرتے ہیں  چلے جاتے ہیں 
اور دیوانہ کسی تاک میں بیٹھا ہوا ہے
وہ خُدا جس کی ضرورت ہے زمیں زادوں کو 
جانے کیا سوچ کے افلاک میں بیٹھا ہوا ہے
شہر میں آگ لگانے کے لیے کافی ہے 
اِک شرر جو خس و خاشاک میں بیٹھا ہوا ہے
اُس نے جاتے ہوئے مُڑ کر بھی مجھے دیکھا تھا 
وہی اِک وہم سا ' ادراک میں بیٹھا ہوا ہے
بزم کی بزم اُلٹ جائے گا جاتے جاتے 
یہ جو ناداں، صفِ چالاک میں بیٹھا ہوا ہے

عمران عامی

Comments