جو آگ سے گزرتا ہے اس کا ہے ڈھنگ اور

جو آگ سے گزرتا ہے اس کا ہے ڈھنگ اور
مٹّی کا رنگ اور ہے کوزے کا رنگ اور

کرتا بھی کیا جو تیغ کو کرتا نہ میں نیام
دیوار پر سجاؤں تو لگتا ہے زنگ اور



ناکام ہوکے عشق ميں کرنا ہے پھر سے عشق
ہونی ہے زندگی سے ابھی ایک جنگ اور

حیران ہوں زمانے کی رفتار دیکھ کر
چلتا ہوں اس سے تیز تو ہوتا ہوں دنگ اور

دیوانگی میں رقص نہ کر سب کے سامنے
کر دے گا کوئی پاؤں کی زنجیر تنگ اور

فیصل عجمی

Comments