یہ مری انا کی شکست ہے نہ دوا کرو نہ دعا کرو​

یہ مِری اَنا کی شِکست ہے، نہ دوا کرو نہ دُعا کرو​

جو کرو تو بس یہ کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو​

وہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اُس میں تِیر بہت سے ہیں​

کوئی تیر تم کو نہ آ لگے مِرے زخمِ دل پہ نہ یُوں ہنسو​

نہ میں کوہ کن ہوں، نہ قیس ہوں، مجھے اپنی جان عزیز ہے​

مجھے ترکِ عِشق قبوُل ہے، جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو​

جو تُمھارے دِل میں شکوُک ہیں تو یہ عہْد نامے فضُول ہیں​

جو مِرے خطوُط ہیں پھاڑ دو، یہ تُمھارے خط ہیں سمیٹ لو​

جو کسی کو کوئی ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا​

یہ تو اِک اصول کی بات ہے، جو خفا ہے مجھ سے کوئی تو ہو​

مجھے اب صداؤں سے کام ہے، مجھے خال و خد کی خبر نہیں​

تو پھر اِس فریب سے فائدہ ؟ یہ نقاب اب تو اُتار دو​

مجھے اپنے فُقر پہ ناز ہے، مجھے اِس کرَم کی طلب نہیں​

میں گدا نہیں ہُوں فقِیر ہُوں، یہ کرَم گداؤں میں بانٹ دو​

یہ فقط تُمھارے سوال کا، مِرا مُختصر سا جَواب ہے​

یہ گِلہ نہیں ہے، خلوُص ہے، مِری گفتگو کا اثر نہ لو​

یہ ادھوُرے چاند کی چاندنی بھی اندھیری رات میں کم نہیں !​

کہیں یہ بھی ساتھ نہ چھوڑ دے، ابھی روشنی ہے چلے چلو​

اقبال عظیم​

Comments