چلو فرار خودی کا کوئی صلہ تو ملا

چَلو! فرارِ خُودی کا کوئی صِلہ تو مِلا
ہمیں ملے نہیں اُس کو، ہمیں خدا تو ملا
نِشاط ِقریۂ جاں سے جُدا ہُوئی خُوشبو
سفر کچھ ایسا ہے اب کے، کوئی مِلا تو مِلا
ہمارے بعد رِوایَت چَلی محبّت کی
نظامِ عالَمِ ہستی کو فلسَفہ تو مِلا
جو چھوڑ آئے تھے تسکین دل کے واسطے ہم
تُمھیں اے جان   تمنّا ! وہ نقش ِپا تو مِلا
سوال آ گئے آنکھوں سے چھن کے ہونٹوں پر
ہَمَیں جواب نہ دینے کا فائدہ تو مِلا
یہ آہ و گریہ و زاری کہیں تو کام آئی
ہَوائے دشت کو،  پانی کا ذائقہ تو مِلا
نمازِ عصر نہیں پڑھ سکی مِری وحشت
جنوُنِ عِشق کو میدان کربلا تو مِلا
پھر اُس کے بعد بر آمد نہ ہو سکا کُچھ بھی
ہمارے آنکھ میں ، جلتا ہُوا دِیا تو مِلا
ابھینندن پانڈے

Comments