ہم عشق کے خمار سے باہر نہیں گئے

ہم عشق کے خُمار سے باہر نہیں گئے
دھڑکن کے اضطرار سے باہر نہیں گئے
تُو ہم سے پوچھتا ہے سمندر کا کیا بنا
ہم تو تِرے دیار سے باہر نہیں گئے
وہ لفظ لفظ لکھتا رہا، داستانِ دل
ہم ہیں، کہ اختصار سے باہر نہیں گئے
ہم کو گُلاب رُت سے ہو نسبت بھی کس طرح
ہم دل کے ریگزار سے باہر نہیں گئے
اچھا تو اِس سے آگے جہاں اور بھی ہیں کیا
ہم لوگ انتظار سے باہر نہیں گئے
تاعمر جس پہ چل کے بھی منزل نہیں ملی
ہم ایسی رہگزار سے باہر نہیں گئے
وہ بھی کسی سراب کا قیدی بنا رہا
کچھ ہم بھی اختیار سے باہر نہیں گئے



 لوگوں نے چاند تارے مسخّر کیے بتولؔ
ہم دل کے کاروبار سے باہر نہیں گئے

فاخرہ بتول

Comments