دشت طغیانی سیلاب میں موجود رہا

دشت طغیانی سیلاب میں موجود رہا
خواب اجڑا بھی تو میں خواب ميں موجود رہا



بارش  نور تو سورج نے بہت کی لیکن
داغ ایسا تھا کہ مہتاب میں موجود رہا

ابدیّت کا نشہ اپنی جگہ ہے لیکن
خوف نابود بھی اعصاب میں موجود رہا

پھول بننے کا یہی اک متبادل تھا کہ میں
شعلہ بن کر شب شاداب ميں موجود رہا

میں ہوں وہ معبد  بے حد کہ خدا کے ہوتے
ایک بت بھی مری محراب میں موجود رہا

میرے ہونے کی اذّیت وہ اذيّت تھی کہ میں
بے سبب عالم  اسباب میں موجود رہا

کوئی غیرت تھی کسی مرقد مجبوری میں
کوئی طوفاں تھا کہ پایاب ميں موجود رہا

مات ہونے پہ بھی میداں نہیں چھوڑا شاہد
غرق ہو کر بھی میں گرداب میں موجود رہا

شاہد ذکی

Comments