جیسے کہ رات بیت گئی خواب کے بغیر

حیسے کہ رات بیت گئی خواب کے بغیر
میری یہ پہلی عید تھی احباب کے بغیر



یوں بے دلی کے ہاتھ سے خالی پڑا ہے دل
جیسے کوئی مکان ہو اسباب کے بغیر

اک آدھ دوست دشمنوں جیسا بھی چاہیۓ
دریا سراب لگتا ہے گرداب کے بغیر

بے بات بھی الجھتے ہیں اب لوگ شہر میں
چھڑنے لگے ہیں ساز یہ مضراب کے بغیر

حرف  غلط نہیں ! پہ زمانہ بھی کیا کرے
لکھّا گیا ہو جب مجھے اعراب کے بغیر

لیاقت علی عاصم

Comments