چاہے آغاز اب انجام سے کرنا پڑ جائے

چاہے آغاز اب انجام سے کرنا پڑ جائے 
جی اٹھیں ہم کو اگر آپ پہ مرنا پڑ جائے



 کتنا مشکل ہے اگر کوئے محبت سے مجھے 
کار - دنیا کے ارادے سے گزرنا پڑ جائے
بھیگے بالوں کو سنبھال اور نکل جنگل سے 
اس سے پہلے کہ ترے پاؤں یہ جھرنا پڑ جائے
کچھ ٹھہرتا نہیں اس ٹوٹے ہوئے برتن میں 
دل دوبارہ نہ کہیں چاک پہ دھرنا پڑ جائے
کٹ کے جینا ہے تری ذات سے ایسے جیسے 
خود بخود ہوتے ہوئے کام کو کرنا پڑ جائے
اظہر فراغ

Comments