زمیں پر شور محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے

زمیں پر شور محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے
ہم اپنے گیت گائيں یہ تو سب ہوتا ہی رہتا ہے



یہ ہم نے بھی سنا ہے عالم  اسباب ہے دنیا
یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتا ہے

تری خاطر کئی سچّائیوں سے کٹ گئے رشتے
محبت میں تو یہ ترک  نسب ہوتا ہی رہتا ہے

مسافر رات کو اس دشت میں بھی رک ہی جاتے ہیں
ہمارے دل ميں بھی جشن  طرب ہوتا ہی رہتا ہے

کوئی شے طشت میں ہم سر سے کم قیمت نہیں رکھتے
سو اکثر ہم سے نزرانہ طلب ہوتا ہی رہتا ہے

عرفان صدّیقی

Comments