بجھتے ہوئے چراغ پہ ڈالی ہے روشنی

بجھتے ہوئے چراغ پہ ڈالی ہے روشنی
بنتی نہیں تھی اور بنالی ہے روشنی



دریا غروب ہونے چلا تھا کہ آج رات
غرقاب کشتیوں نے اچھالی ہے روشنی

اپنی نشست چھوڑ کے واں رکھ دیا چراغ
میں نے زمین دے کے بچا لی ہے روشنی

ہاتھوں کا امتحان لیا ساری ساری رات
سانچے ميں صبح و شام کے ڈھالی ہے روشنی

ميں نے کنار  شام گزاری ہے ایک عمر
ميں جانتا ہوں ڈوبنے والی ہے روشنی

کیا راکھ اڑ رہی ہے نظر کی منڈیر سے
خالی دیا ہے اور خیالی ہے روشنی

اس بار تیرے خواب میں رکّھا ہے اپنا خواب
اس بار روشنی نے سنبھالی ہے روشنی

ثانی بھی ہو ، شریک بھی ہو اور کہیں بھی ہو
اک اور روشنی کی سوالی ہے روشنی

آنکھوں ميں جمع کرتے تھے ہم دن بھی رات بھی
اب کیا کریں جو اتنی بڑھا لی ہے روشنی

شاہین عباس

Comments