ہر کسی کو کب بھلا یوں مُسترد کرتا ہوں میں


ہر کسی کو کب بھلا یوں مُسترد کرتا ہوں میں
تُو ہے خوش قسمت اگر تجھ سے حسد کرتا ہوں میں
بُغض بھی رکھتا ہوں سینے میں امانت کی طرح
نفرتیں کرنے پہ آ جاؤں تو حد کرتا ہوں میں
کوئی اپنے آپ کو منوانے والا بھی تو ہو
ماننے میں کب کسی کے رد و کَد کرتا ہوں میں
کچھ شعوری سطح پر ، کچھ لاشعوری طور پر
کارِ فکر و فن میں اب سب کی مدد کرتا ہوں میں
اِس لئے مجھ سے خفا ہیں اہلِ گُلشن آج کل
رنگ جُھٹلاتا ہوں ، خوشبو مُسترد کرتا ہوں میں
میرے جزبوں سے بچاؤ ، نیک دِل لوگو مجھے
روز و شب اِن بدمعاشوں کی مدد کرتا ہوں میں
دُوسروں کے واسطے لکھا ہوا لگتا ہے جھوٹ
اپنی سچائی کو اکثر پ رد کرتا ہوں میں
رنگ پر آئی ہوئی ہے اب جنوں خیزی مری
روز و شب توہینِ اربابِ خِرد کرتا ہوں میں
طوق گردن میں پہنتا ہوں لہو کی دھار کا
خلق کو حیران ساجد زَد بہ زَد کرتا ہوں میں
اقبال ساجد

Comments