منیر نیازی , پروین شاکر غزل

منیر نیازی
اُگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہِلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اسے آخر مکانِ خاک میں لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
..... 10
پروین شاکر
کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ 
کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ
کوئی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے 
کٹھن ہو راہ تو چھٹتا ہے گھر آہستہ آہستہ
بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے 
کہ تھکتا جا رہا ہے ہم سفر آہستہ آہستہ
خلش کے ساتھ اس دل سے نہ میری جاں نکل جائے 
کھنچے تیر شناسائی مگر آہستہ آہستہ
ہوا سے سرکشی میں پھول کا اپنا زیاں دیکھا 
سو جھکتا جا رہا ہے اب یہ سر آہستہ آہستہ 

Comments