زھر سے ، الماس سے ، تلوار سے

زھر سے ، الماس سے ، تلوار سے
مجھ کو اُلفت ھے انھیں دو چار سے
لے چلیں تھوڑا نمک بھی دشت میں
آبلے پھوٹیں گے آخر خار سے
نعش اُٹھانے کا ھی اب ساماں کریں
چارہ گر بیٹھے ہیں کیوں ناچار سے
ذکرِ وصلِ غیر کر بیٹھے مباد
کیا ملیں ھم محرمِ اسرار سے
پھر تو قابو میں اجل کے آ چکے
بچ گئے ھم گر غمِ دلدار سے
کاٹ کر سر خط کی جا بھیجا اُسے
کام خامے کا لیا تلوار سے
جب ھمارا رشک سے جی بھر گیا
بزم خالی ھو گئی اغیار سے
جو گلہ سمجھے تھے نکلا شکر ھاےٓ
کی شکایت ھم نے کس عیّار سے
واہ ! ھم تو دیکھ کر مر جائیں ، اور
زندہ ھوں مردے تری رفتار سے
وھمِ آسائش سے وحشت ھو گئی
اُس پری کے سایہٓ دیوار سے
پھر بلا سے کوئی بیٹھے شیفتہؔ
اُٹھ گئے جب آپ کوےٓ یار سے
شیفتہ

Comments