ہوا چلی تھی کچھ ایسی, بکھر گئے ہوتے

ہوا چلی تھی کچھ ایسی, بکھر گئے ہوتے
رگوں میں خوں نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے


نئے شعور کو جن کا شکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہمیں پر گزر گئے ہوتے
ہمی نے روک لئے سر یہ تیشہء الزام
وگرنہ شہر میں کس کس کے سر گئے ہوتے
ہمی نے زخم دل و جان چھپا لیے ورنہ
نہ جانے کتنوں کے چہرے اتر گئے ہوتے

سکعن و دل کو نہ اس طرح بھی ترستے ہم
تیرے کرم سے سے جو بچ کر گزر گئے ہوتے
جو تیر اندھی ہوا نے چلائے تھے کل رات 
نہ ہوتے ہم تو نا جانے کدھر گئے ہوتے
ہمیں بھی دُکھ تو بہت ہے مگر یہ جھوٹ نہیں
بھلا نہ دیتے اسے ہم تو مر گئے ہوتے
جو ہم بھی اس سے زمانے کی طرح ملتےاُمید
ہمارے شام و سحر بھی سنور گئے ہوتے
امید فاضلی

Comments