آسماں ہے، نہ زمیں ہے، نہ خلا، کچھ بھی نہیں


آسماں ہے، نہ زمیں ہے، نہ خلا، کچھ بھی نہیں
عالمِ ہست نہونے کے سوا کچھ بھی نہیں
میں یہ سمجھا مرے ہونے سے بہت کچھ ھوگا
میں یہ جانا مرے ہونے سے ہوأ کچھ بھی نہیں
میں تو پہلے ہی بدن اپنا اُتار آیا تھا
عشق کی آگ میں کُودا تو جلا کچھ بھی نہیں
غلغلہ تھا مرے پُرکھوں کی وراثت کا بہت
ہاں خزانہ تھا! مگر اس میں بچا کچھ بھی نہیں
سادے کاغذ پہ بہت رنگ انڈیلے لیکن
اپنی تصویر بنانے سے بنا کچھ بھی نہیں
ہے کسی عکس کی غفلت سے تماشہ ورنہ
دہر کے آئنہ خانے میں دھرا کچھ بھی نہیں
کوئی دھوکہ ہے مری بے سروسامانی بھی
یا تو سب کچھ ہی مرے پاس ہے یا کچھ بھی نہیں
اُس کے دیکھے سے نشہ، بات جو کرلے تو شفا
اپنے پلّے میں تو دارو نہ دوا کچھ بھی نہیں
اُس علاقے میں کوئی رات گزار آیا ہے
جس علاقے میں بجز ذاتِ خدا کچھ بھی نہیں
یہ الگ بات کہ دریا کو ملی موجِ دوام
ورنہ مشکیزے کو دریا سے ملا کچھ بھی نہیں
میں نے تقریر سے شمشیر کا منہ توڑ دیا
تم تو کہتے تھے مرے بس میں رہا کچھ بھی نہیں
(فقیر عارف امام)

Comments