جو اپنی زندگانی کو حباب آسا سمجھتے ہیں


جو اپنی زندگانی کو حباب آسا سمجھتے ہیں
نفس کی موج کو موج لب دریا سمجھتے ہیں
گواہی دیں گے روزِ حشر یہ سارے گناہوں کی
سمجھتا میں نہیں لیکن مرے اعضا سمجھتے ہیں
شریکِ حال دنیا میں نظر آتا نہیں کوئی
فقط اک بیکسی ہے جس کو ہم اپنا سمجھتے ہیں
جو ہیں اہلِ بصیرت اس تماشا گاہِ ہستی میں
طلسم زندگی کو کھیل لڑکوں کا سمجھتے ہیں
معرّا ہوں ہنر سے میں سراپا عیب ہوں اکبرؔ
عنایت ہے احبا کی اگر اچھا سمجھتے ہیں 
اکبر الہ آبادی

Comments