شامِ غم کے سب سہارے ٹوٹ کر
شامِ غم کے سب سہارے ٹوٹ کر
ختم ہو جائیں نہ تارے ٹوٹ کر
خواہشیں کچھ مرگئی ہیں نیند میں
خواب کچھ بکھرے ہمارے ٹوٹ کر
بارشوں نے کام دریا کا کیا
کیا کریں گے اب کنارے ٹوٹ کر
اک تمہارا عشق زندہ رہ گیا
مر گئے ہم لوگ سارے ٹوٹ کر
مجھ کو پھر اذنِ مسافت دے گئے
آسماں پر کچھ ستارے ٹوٹ کر
ہم سفالِ بے مرکب ہیں ندیمؔ
گر رہے ہیں بُت ہمارے ٹوٹ کر
ندیم بھابھہ
Comments
Post a Comment