یہ زندگی سوال تھی جواب مانگنے لگے

یہ زندگی سوال تھی،جواب مانگنے لگے
فرشتے آ کے خواب میں، حساب مانگنے لگے

ادھر کیا کرم کسی پہ اور ادھر جتا دیا
نماز پڑھ کے آئے اور، شراب مانگنے لگے

سخن وروں نے بنا دیا خود سخن کو ایک مذاق
ذرا سی داد کیا ملی، خطاب مانگنے لگے

تجارتوں کا رنگ بھی عبادتوں میں آ گیا
سلام پھیرتے ہی ہم ،ثواب مانگنے لگے

دکھائی جانے کیا دیا ہے جگنؤں کو خواب میں
کھلی ہے جب سے آنکھ ،آفتاب مانگنے لگے

ڈاکٹر راحت اندوری 

Comments