شکوۂ بے جا کی کیا ان سے شکایت ہم کریں 

شکوۂ بے جا کی کیا ان سے شکایت ہم کریں 
کچھ تو ہیں پہلے ہی برہم اور کیا برہم کریں 
وہ توجہ دیں تو ہو آراستہ بزم حیات 
وہ نگاہیں پھیر لیں تو انجمن برہم کریں 
یوں بدل لیں طالع خورشید سے بخت سیاہ 
آسماں کی طرح سر کو تیرے در پر خم کریں 
آئنہ دار نمود حسن روز افزوں جو ہو 
ہم کہاں سے روز پیدا اک نیا عالم کریں 
آگہی سر چشمۂ رنج و الم تاثیرؔ ہے 
ہم خوشی سے ہی نہیں واقف تو پھر کیا غم کریں 
محمد دین تاثیر

Comments