یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہو گی

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہو گی
خدا کے سامنے جب میری آپ کی ہو گی
ترے شہید تبسم کی وہ خوشی ہو گی
وہاں گور پہ بے ساختہ ہنسی ہو گی
تمام عمر بسر یوں ہی زندگی ہو گی
خوشی میں رنج، کہیں رنج میں خوشی ہو گی
خطائے عشق کو توبہ نہ جیتے جی ہو گی
ہزار بار ہوئی اور پھر وہی ہو گی
جفائے تازہ کی دھمکی نہ دیجیے ہم کو
ہمیشہ ہوتی ہے، کیا آج ہی نئی ہو گی
وہاں بھی تجھ کو جلائیں گے، تم جو کہتے ہو
خبر نہ تھی مجھے جنت میں آگ بھی ہو گی
تری نگاہ کا لڑنا مجھے مبارک ہو
یہ جنگ وہ ہے کہ آخر کو دوستی ہو گی
سلیقہ چاہیے عادت ہے شرط اس کے لیے
اناڑیوں سے نہ جنت میں مے کشی ہو گی
غم فراق ہمیں کھا نہ جائے گا ظالم
ہزار سال جئیں گے جو زندگی ہو گی
مئے طور کا بھی وصف سن نہیں سکتے
ہماری طرح سے توبہ کسی نے کی ہو گی؟
مزا ہے ان کو بھی مجھ کو بھی ایسی باتوں کا
جلی کٹی یوں ہی باہم کٹی چھنی ہو گی
غم فراق میں آثار ہیں ردی اپنے
جو بچ گئے تو نئے سر سے زندگی ہو گی
جمے گا رنگ نرالا شب وصال رقیب
لب عدو پہ لب یار کی مسی ہو گی
ہمارے غم کدہء دل سے یہ برستا ہے
کسی زمانے میں شادی یہاں رچی ہو گی
رہیں گے کیا یوں ہی اے نامہ پیام و سلام
ہماری ان کی ملاقات بھی کبھی ہو گی
کسی کی لائے ہیں تصویر حضرت ناصح
لگائے دیتے ہیں یہ حکم ہم بری ہو گی
وہاں بھی وعدہء فردا کرو گے کیا مجھ سے
قیامت ایک کے بعد اور دوسری ہو گی
قلم نہ ہو کہیں روز حساب اے ناصح
وہاں بھی تیری زباں چار ہاتھ کی ہو گی
ہمارے کان لگے ہیں تری خبر کی طرف
پہنچ ہی جائے گی جو کچھ بری بھلی ہو گی
مجھے ہے وہم یہ شوخی کا رنگ کل تو نہ تھا
رقیب سے تری تصویر بھی ہنسی ہو گی
ملیں گے پھر کبھی اے زندگی خدا حافظ
خبر نہ تھی یہ ملاقات آخری ہو گی
دعائے وصل بتاں مانگتا ہوں کعبے میں
خدا کے گھر میں کسی شے کی کیا کمی ہو گی
رقیب اور وفادار ہو، خدا کی شان
نہ دوستی کبھی ہو گی، نہ دشمنی ہو گی
نصیب لذت آزار عشق ہو تو سہی
یہ جانتا ہوں کہ مر مر کے زندگی ہو گی
نہ دیکھے نفع و ضرر کو تو کیا ہے وہ انساں
ہماری آنکھ کی پتلی نہ آدمی ہو گی
نگاہ شوخ ہی کچھ دے جواب چل پھر کر
تمہاری چال کی کس سے برابری ہو گی
بہت جلائے گا حوروں کو داغ جنت میں
بغل میں اس کی وہاں ہند کی پری ہو گی
مرزا داغ دہلوی

Comments