آج وہ زلف پریشاں کیے بیٹھے ہیں

دل میں گھر یار کے پیکاں کیے بیٹھے ہیں
مجھ پہ قبضہ مرے مہمان کیے بیٹھے ہیں

تیرے وعدے کے ارماں کیے بیٹھے ہیں
تین دن پہلے ہی سامان کیے بیٹھے ہیں

اللہ اللہ رے اُنہیں میری نظر سے پرہیز
کہ رقیبوں کو نگہباں کیے بیٹھے ہیں

اس طرح بیٹھے ہیں سر کاٹ کے میرا سر بزم
مجھ پہ گویا کہ وہ احسان کیے بیٹھے ہیں

ایسی وحشت نہیں اپنی کہ ہو محتاج بہار
پہلے ہی چاک گریباں کیے بیٹھے ہیں

مہندی ملنے کے بہانے ہیں عبث یوں کہیے
آج اغیار سے پیماں کیے بیٹھے ہیں

دیکھ اے دشمن ایمان کہ وفا پر تیری
کس قدر صبر مسلماں کیے بیٹھے ہیں

دیکھیئے کون گرفتار بلا ہوتا ہے
آج وہ زلف پریشاں کیے بیٹھے ہیں

اب ہے کیا ہم میں جو لے گی نگہہ ناز تری
پہلے ہی جاں کا نقصان کیے بیٹھے ہیں

حسرت و یاس و تمنا کے لیے اک دل تھا
ہم اُسے پہلے ہی ویران کیے بیٹھے ہیں

حضرت داغ کو پھر کیا کہیں وحشت اُچھلی
آج گھر کو جو بیاباں کیے بیٹھے ہیں
داغ دہلوی

Comments