بن گیا جس دن مکاں خود ہی مکیں آجائے گا

فکر کر تعمیرِ دل کی وہ یہیں آجائے گا
بن گیا جس دن مکاں خود ہی مکیں آجائے گا
کونسا ہم روز روز اُس کو بلاتے ہیں ہیں یہاں
بے مروت ہے مگر اتنا نہیں ، آ جائے گا
ہم سے مل لینے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اب
ہر کوئی اُس کا بُلا لے ہر کہیں آجائے گا
خود بھی وہ چالاک ہے لیکن اگر ہمّت کرو
پہلا پہلا جھوٹ ہے اُس کو یقیں آجائے گا
سرخوشی کا سلسلہ چلتا رہے گا اور پھر
درمیاں میں پھر کوئی حرفِ حزیں آجائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِس لشکر کشی سے حُسن کا
کچھ علاقہ اور بھی زیرِ نگیں آجائے گا
زخمِ دل تو سات پردوں میں نہاں ہوگا ظفر
اور سب کے سامنے داغِ جبیں آجائے گا
ظفر اقبال

Comments