یہ جو چَھلکے ہیں، نہیں قطرے مئے گلفام کے


یہ جو چَھلکے ہیں، نہیں قطرے مئے گلفام کے
میری قسمت پر نکل آئے ہیں آنسو جام کے
کس سے شکوہ کر رہے ہیں آ دامن تھام کے
بندہ پرور سینکڑون ہوتے ہیں اک اک نام کے
ہیں ہمارے قتل میں بدنام کتنے نام کے
جو کہ قاتل ہے وہ بیٹھا ہے ہے کلیجہ تھام کے
یہ سمجھ لو رکھنی بات مجھے صیاد کی
ورنہ میں نے سینکڑوں توڑے ہیں حلقے دام کے
غفلت خوابِ جوانی عہدِ پیری میں کیا
صبح کو اٹھ بیٹھتے ہیں سونے والے شام کے
رہبروں کی کشمکش میں ہے ہمارا قافلہ
منزلوں سے بڑھ گئے ہیں فاصلے دو گام کے
دیدہ میگوں نہ دکھلا روئے روشن کھول کر
صبح کو پیتے نہیں ہیں پینے والے شام کے
مرگِ عاشق پر تعجب اس تعجب کے نثار
مرتکب جیسے نہیں سرکار اس الزام کے
اے قمر بزمِ حسیناں کی وہ ختمِ شب نہ پوچھ
صبح کو چھپ جائیں جیسے چاند تارے شام کے
قمر جلالوی

Comments