زندگی فراڈ ہے، فراڈ سے نبھائے جا

زندگی فراڈ ہے، فراڈ سے نبھائے جا
چل رہی ہے چار سو بیس تو چلائے جا

غم نہ کر الم نہ کر، فکرِ بیش و کم نہ کر
چندہ جس قدر بھی قوم دے رہی ہے، کھائے جا

لاکھ آندھیاں چلیں، لاکھ بجلیاں گریں
بے بسی کو یورشوں میں اپنی "بس" چلائے جا

اعتمار قوم کا تجھ پہ گر نہیں تو کیا؟
"نوکروں" پہ لیڈری کا رعب تو جمائے جا

ان کو تو دبائے جا تجھ سے جو غریب ہیں
اور بڑے جو تجھ سے ہیں ان کو "بٹر" لگائے جا

افسروں کے سامنے سر جھکا سلام کر
پارٹی ہو گر کوئی اس میں بِن بلائے جا

حادثاتِ زیست کا اے مجید! غم نہ کر
حادثاتِ زیست پر خوب مسکرائے جا
مجید لاہوری

Comments