شام ہوتی ہے تو ہم گھر سے نکل جاتے ہیں

شام ہوتی ہے تو ہم گھر سے نکل جاتے ہیں
اور کچھ دیر کو غم  گھر سے نکل جاتے ہیں
رات بھر ٹوٹتے رہتے ہیں ستاروں کی طرح
صبح پھر ہو کے بہم گھر سے نکل جاتے  ہیں
ذہن تھک جاتا ہے اک یاد کو لکھتے لکھتے
چھوڑ کے لوح و قلم گھر سے نکل جاتے  ہیں
اب کوئی دشتِ محبت میں بلاتا بھی نہیں
خود  بخود میرے قدم گھر سے نکل جاتے ہیں
تشنگی ریت کی دیکھی نہیں جاتی ہم سے
ہو کے بادیدہِ نم گھر سے نکل جاتے  ہیں
روز کھاتے ہیں قسم گھر میں رہیں گے باقیؔ
توڑ کے روز قسم گھر سے نکل جاتے  ہیں

باقی احمد پوری

Comments