کسی اہل ہجر کی بد دعا ہے کہ خود سری کا قصور ہے

کسی اہلِ ہجر کی بد دعا ہے کہ خود سری کا قصور ہے
یہ جو بات بن کے بگڑ رہی ہے تو کوئی بات ضرور  ہے
وہ عجیب رات تھی سارے شہر میں اک چراغ نہیں جلا
مگر اک لکیر لہو کی ایسی کھنچی کہ نور ہی نور  ہے
میں بس ایک بار گیا تھا کوئے وصال میں مگر اس کے بعد
وہ بدن کے بھید کھُلے کہ اب نہ حجاب ہے نہ حضور  ہے
یہ عجیب لوگ ہیں جب کے بیچ بکھر رہی ہے متاعِ عمر
نہ کسی پہ گردِ جنون ہے نہ کہیں غُبارِ شعور  ہے
مری بے گھری مجھے کیسے کیسے دروں گھروں پہ لئے پھری
مرا واہمہ تھا کہ میرے رختِ سفر میں جوہرِ نور  ہے
میں چراغ لے کے ہوا کی زد پہ جو آگیا ہوں تو غم نہ کر
میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ہاتھ پہ ایک ہاتھ ضرور  ہے

افتخار عارف

Comments