کسی دیار کسی دشت میں صبا لے جا

کسی دیار کسی دشت میں صبا لے جا
مَیں مُشتِ خاک ہوں مجھ کو کہیں اُڑا لے جا
گُلوں کی باس نسیمِ سَحر سے کہتی ہے
کہیں قیام نہ کر مجھ کو جا بجا لے جا
ذرا سی دھوپ سے پہلو میں آنچ اُٹھتی ہے
میں برگِ خُشک ہوں موجِ فنا، بہا لے جا
خبر نہیں کہ کہاں شب کی ظلمتیں مل جائیں
دیارِ نُور میں بھی مشعلیں جلا لے جا
کہیں فضائے چمن کو نظر نہ لگ جائے
گلوں کو خوب بھی کہہ عیب بھی نکالے جا
کبھی تو جلوہء جاناں کی آگ بھڑکے گی
نگاہِ شوق تُو سانپ آستیں میں پالے جا
تھکن ہزار سہی حوصلہ نہ ہار ابھی
قدم اُٹھیں نہ اُٹھیں دل مگر سنبھالے جا
یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شاید
زمیں بیٹھ، کمند آسماں پہ ڈالے جا
ہُوا زمانہ کہ شہزادؔ مَیں بھی تنہا ہوں
مجھے انجمنِ شوق میں ذرا لے جا

شہزاد احمد

Comments