کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے

وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ

گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے

نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی

ہمارا تھا کیا ٹھیک رہتے نہ رہتے

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا

زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے

مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقب

کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے

ثاقب لکھنوی

Comments