زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت​

زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت​
اس لئے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت​

راندہِ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے​
سُنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت​

وہ قریب آنا بھی چاہے اور گُریزاں بھی رہے​
اُسکا یہ پِندارِ محبوبی مجھے بھایا بہت​

کِتنی یادیں، کِتنے منظر آبدیدہ ہوگئے​
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا، وہ یاد آیا بہت​

سرور بارہ بنکوی

Comments