اکتوبر

اکتوبر
یہ اکتوبر کے روز و شب
صبح اور شام میں ہلکی سی کچھ خنکی
مگر دوپہر میں اب تک تمازت راج کرتی ہے
کڑکتے گرم دن کے سنگ
ملائم نرم سے جھونکے
ہوا اور دھوپ میں جیسے
عجب سی کھینچا تانی ہے
ہے آب و تاب پر سورج
ہوا لیکن ہے کچھ کچھ سرد
اسی مخلوط موسم سے
جنم پت جھڑ کا ہوتا ہے
کبھی خنکی, کبھی گرمی
بھلا کب تک سہے کوئی
ہراول رت, یکایک زرد ہوتی ہے
بہت سے نت نئے رنگ
چار سو یوں چھانے لگتے ہیں
کہ گویا, سب درختوں نے
کئی جنموں کے دکھ اپنے
حسیں جھومر کی مانند
اپنے چہروں پر سجاۓ ہیں
کہیں زردی, کہیں سرخی
کہیں بھورے, کہیں خاکی
ہری شاخوں کے بوجھل تن
ہر اک دکھ سے بدن آزاد کرتے ہیں
بالآخر ہار کر پتے
اترتے ہیں, بکھرتے ہیں
ہوا سنگ اڑتے پھرتے ہیں,
اسی رت کے ہی اک پل میں
ہوا تھا جنم بھی میرا,
اسی رُت کا اثر شاید
میری قسمت,
طبیعت اور میرے دل پہ یوں ہے کہ,
اداسی , تشنگی, محرومیوں اور حسرتوں کے دکھ,
میرے دل کے نہاں خانوں میں
ہر دم پلتے رہتے ہیں,
بہت سے رنگ لے کر,
میری نظموں میں اترتے ہیں,
مگر ہے فرق بس اتنا
کہ نہ بخشی گئی مجھ کو,
طلمساتی صلاحیت 'برگ ریزی' کی...
مجھے تاعمر
اس گٹھڑی کو لے کر,ساتھ چلنا ہے...!

عنبرین خان

Comments