جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا

جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا
ہاتھ سے دل کے ترے اب میں نکل جاؤں گا

لطف اے اشک کہ جوں شمع گھُلا جاتا ہوں
رحم اے آہِ شرر بار! کہ جل جاؤں گا

چین دینے کا نہیں زیرِ زمیں بھی نالہ
سوتوں کی نیند میں کرنے کو خلل جاؤں گا

قطرہء اشک ہوں پیارے، مرے نظّارے سے
کیوں خفا ہوتے ہو، پل مارتے ڈھل جاؤں گا

اس مصیبت سے تو مت مجھ کو نکال اب گھر سے
تُو کہے آج ہی جا، میں کہوں کل جاؤں گا

چھیڑ مت بادِ بہاری کہ میں جوں نکہتِ گُل
پھاڑ کر کپڑے ابھی گھر سے نکل جاؤں گا

میری صورت سے تو بیزار ہے ایسا ہی تو دیکھ
شکل اس غم سے کوئی دن میں بدل جاؤں گا

نطق کہتا ہے مرا آج یہ ہر ناطق سے
آن کر ہونٹ ابھی طوطی کے مل جاؤں گا*

کہتے ہیں وہ جو ہے سودا کا قصیدہ ہی خوب
اُن کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا

مرزا رفیع سودا

Comments