دل ابھی تک جوان ہے پیارے

دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
تو مرے حال کا خیال نہ کر
اس  میں بھی ایک شان ہے پیارے
وقت کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے
تلخ کردی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے
نام ہے اس کا ناصحِ مشفق
یہ مرا مہربان ہے پیارے
جانے کیا کہہ دیا تھا روزِ ازل
آج تک امتحان ہے پیارے
کب کیا میں نے عشق کا دعویٰ
تیرا اپنا گمان ہے پیارے
ساری دنیا کو غلط فہمی ہے
مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے
میں تجھے بے وفا نہیں‌ کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے
تیرے کوچے میں‌ ہے سکوں ورنہ
ہر زمین آسمان ہے پیارے
خیر فریاد بے اثر ہی سہی
زندگی کا نشان ہے پیارے
حفیظ جالندھری

Comments